غزلیات

کہتے ہیں اِک فریبِ مُسلسل ہے زندگی

 آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا

میں کامیابِ دید بھی، محرومِ دید بھی

جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی

یوں لب کشا ہوئے کہ گُلِستاں بنا دیا

کچھ شورشوں کی نذر ہوا خونِ عاشقاں

کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا

اے شیخ، وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی

کچھ قیدِ رسم نے جسے ایماں بنا دیا

کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی

جب خاک کر دیا اسے عِرفاں بنا دیا

کیا کیا قُیود دہرمیں ہیں اہلِ ہوش کے

ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا

اِک برق تھی ضمیر میں فِطرت کے موجزن

آج اس کو حُسن و عشق کا ساماں بنا دیا

مجبورئ حیات میں رازِ حیات ہے

زنداں کو میں نے روزنِ زنداں بنا دیا

وہ شورشیں نظامِ جہاں جن کے دم سے ہے

جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا

 

( اصغر گونڈوی )




0 comments: